پی ڈی ایم جماعتوں کی دھواں دار پریس کانفرنس، ججز پر تنقید کی بوچھاڑ، عدلیہ سے کونسے بڑے مطالبات کر دیے؟
ویب ڈیسک: ( اسلام آباد ) حکومتی اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کی وزیر اعظم سیکٹیریٹ میں عدلیہ کے حالیہ فیصلوں کے حوالے سے مشترکہ پریس کانفرنس، جس میں مولانا فضل الرحمن ، بلاول بھٹو، ن لیگ کی نائب سربراہ مریم نواز، محسن داوڑ اور ق لیگ کے طارق بشیر چیمہ نے شرکت کی۔
تفصیلات کے مطابق ن لیگ کی سربراہ مریم نواز نے عدلیہ پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی، ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہمارے سارے کیسسز کی سماعت یہی تین ججز کریں، کیا ہمیں حق حاصل نہیں کہ ہمارے کیس کی سماعت فل لارجر بنچ کرے؟ ہم ملک کی خاطر خاموش تھے تو اس کو ہماری کمزوری سمجھا گیا، ہم نے ہر عدالتی فیصلے کو بغیر تنقید کے قبول کیا لیکن اب ایسا نہیں ہوگا اب فیصلے انصاف کے مطابق ہونگے، کسی لاڈلے کے دباو میں فیصلے نہیں ہونگے۔ ہم عدالتوں سے نکلے گے تو ہی ملک کے فیصلے کریں گے۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ مجھے چاہنے والوں نے آج کی پریس کانفرنس کرنے سے روکا کہ آپکو نا اہل کر دیا جائے گا لیکن میں نے پھر بھی یہ رسک لیا کیونکہ یہ پریس کانفرنس پاکستان کیلیے بہت ضروری تھی۔ مریم نواز نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ آج سپریم کورٹ میں ہمارا داخلہ کیوں بند کیا گیا؟ جبکہ پرسو لاہور رجسٹری کے شیشے ٹوٹنے کے باوجود کسی کو نہیں روکا گیا۔ نواز شریف کی واپسی پر سوال کے جواب میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ وہ جلد وطن واپس آئیں گے لیکن اب جیل نہیں جائیں گے۔
دوسری جانب پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فیضل الرحمن نے بھی عدلیہ پر سنگین الزامات عائد کر دیے۔ انکا کہنا تھا کہ عدلیہ کسی گالم گلوچ کرنے والے کے دباو میں نا آئے بلکہ انصاف کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ ہم عدلیہ کو ڈکٹیشن نہیں دے رہے بس اپنے مطالبات آئینی حدود میں رہتے ہوئے رکھ رہے ہیں۔ ہمارا عدلیہ سے مطالبہ ہے کہ وزیر اعلی پنجاب کے حوالے سے کیس میں فل بنچ تشکیل دیا جائے ہمیں موجودہ بنچ پر عدم اعتماد ہے۔ عوام کی قوت برداشت کا امتحان نا لیں، اس لاوے کو مزید گرم نا کریں، آئینی حدود میں رہتے ہوئے فیصلے کیے جائیں تاکہ ملک میں سیاسی و معاشی اطمینان آئے۔ ہم نے ملک کو بدترین معاشی حالات کے باوجود سنبھالا ورنہ آج سری لنکا جیسے حالات ہوتے، ہماری ملک کی خاطر ان قربانیوں کو کمزوری نا سمجھا جائے۔
آخر میں بلاول بھٹوں کا کہنا تھا کہ اس ملک کے فیصلے عوام خود کری گی نا کہ تین مخصوص لوگ، یہ ملک آئین پاکستان کے تحت چلنا چاہیے کسی کے ڈکٹیشن اور مرضی پر نہیں۔ بلاول بھٹو نے تینوں ججز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ کون ہوتے ہیں عوامی فیصلے کو رد کرنے والے؟ سسلیکٹڈ لوگ الیکٹڈ لوگوں پر حکم نا چلائیں تو پاکستان کے استحکام کیلیے بہتر ہے ورنہ سیاسی عدم استحکام مزید سنگین ہو جائے گا۔